زندگی زندہ ہے لیکن کسی دم ساز کے ساتھ
ورنہ یوں جیسے کبوتر کوئی شہباز کے ساتھ
بجلیاں ساتھ لیے زہر بھرے لمحوں کی
وقت چلتا ہے زمانے میں کس انداز کے ساتھ
آسماں جانے کہاں لے کے چلا ہے مجھ کو
اوپر اٹھتا ہے برابر مری پرواز کے ساتھ
آج تنہا ہوں تو کیا، دیکھتا رہنا کل تک
اور آوازیں بھی ہوں گی مری آواز کے ساتھ
ایک آغاز ابھرتا ہے ہر انجام کے بعد
ایک انجام بھی پلتا ہے ہر آغاز کے ساتھ
ایک لمحہ کہ گراں ہے مجھے تنہائی میں
ایک دنیا کہ جواں ہے مرے ہم راز کے ساتھ
غزل
زندگی زندہ ہے لیکن کسی دم ساز کے ساتھ
جلیل عالیؔ