زندگی یوں کریں بسر کب تک
ہم ملیں گے نہیں مگر کب تک
تم بظاہر جو لا تعلق ہو
اور ہم تم سے درگزر کب تک
راستے راستے گماں تیرا
اور تنہا کروں سفر کب تک
آہ نکلے نہ کب تلک آخر
خون ہوتا رہے جگر کب تک
آؤ دیکھیں یہ ہجر کا صحرا
اور کرتا ہے در بدر کب تک
ایک امید وصل ہے لیکن
ایک امید پہ گزر کب تک
غزل
زندگی یوں کریں بسر کب تک
عارف اشتیاق