زندگی یوں بھی کبھی مجھ کو سزا دیتی ہے
ایک تصویر کتابوں سے گرا دیتی ہے
آپ اچھے ہیں برے ہیں کہ فقط بار حیات
فیصلہ خلق خدا خود ہی سنا دیتی ہے
کتنے نادیدہ مناظر سے اٹھاتی ہے نقاب
رات آتی ہے تو خوابوں کو جگا دیتی ہے
اب بھی محراب تمنا میں کسک ماضی کی
شام ہوتے ہی کوئی شمع جلا دیتی ہے
عشق ہے روگ ہی ایسا کہ نہیں اس کا علاج
آتش دل کو دوا اور بڑھا دیتی ہے
سینۂ سنگ میں پوشیدہ صدائے فرہاد
ایک اک ضرب پہ شیریں کا پتہ دیتی ہے
جس کی آغوش میں ہم روز ملا کرتے تھے
اب وہی شام ہر ایک شام صدا دیتی ہے
میں کہاں اور کہاں شعر و سخن ہے ذاکرؔ
کوئی طاقت ہے جو لفظوں کو جلا دیتی ہے
غزل
زندگی یوں بھی کبھی مجھ کو سزا دیتی ہے
ذاکر خان ذاکر