زندگی الجھی ہے بکھرے ہوئے گیسو کی طرح
غم پیے جاتے ہیں امڈے ہوئے آنسو کی طرح
آج وحشت کا یہ عالم ہے کہ ہر انساں ہے
دشت تجرید کے بھاگے ہوئے آہو کی طرح
ظلم کا آگ اگلتا ہوا سورج سر پر
تپش درد سے ہر سانس ہے اب لو کی طرح
ہے گلستاں میں تری گل بدنی کا شہرا
کاش تو گزرے ادھر سے کبھی خوشبو کی طرح
اسی امید پہ آئینۂ دل دھوتے ہیں
منعکس ہو کوئی صورت مرے مہ رو کی طرح
شب فرقت میں بھی تنہائی میسر نہ ہوئی
لاکھ غم گھیرے رہے مجھ کو جفا جو کی طرح
بے دلی شرط ملاقات ہے تو یوں ہی سہی
ہم ترے شہر میں اب آئیں گے سادھو کی طرح
ڈوبنے لگتی ہے جب رنگ کے سیلاب میں آنکھ
یاد تب اس کی بچا لیتی ہے جادو کی طرح
سرزنش بھی تری بنتی ہے سہارا میرا
راہ دشوار میں پھیلے ہوئے بازو کی طرح
لذت دہر میں گم ہوتا ہے جب دل اسریٰؔ
تب کسک اٹھتا ہے وہ درد کے پہلو کی طرح
غزل
زندگی الجھی ہے بکھرے ہوئے گیسو کی طرح
اسریٰ رضوی