EN हिंदी
زندگی تھام لیا کرتے ہیں بڑھ کر لمحے | شیح شیری
zindagi tham liya karte hain baDh kar lamhe

غزل

زندگی تھام لیا کرتے ہیں بڑھ کر لمحے

اشوک مزاج بدر

;

زندگی تھام لیا کرتے ہیں بڑھ کر لمحے
وقت آنے پہ بدلتے ہیں مقدر لمحے

آ بھی جا تجھ کو بلاتے ہیں یہ کہہ کر لمحے
پھر نہ آئیں گے بہاروں کے معطر لمحے

ہر گھڑی ایک سا موسم بھی کہاں رہتا ہے
ہیں کہیں پھول سے کومل کہیں پتھر لمحے

سب میں یاری ہیں یہاں دوستی یاری سکھ دکھ
کس نے دیکھے ہیں یہاں عمر سے بڑھ کر لمحے

زندگی آج بھی مصروف بہت ہے لیکن
ہم چلے آئے ترے پاس چرا کر لمحے

ایک نا چیز کو فن کار بنا دیتے ہیں
حاصل عمر ہوا کرتے ہیں دم بھر لمحے