زندگی تیری تمنا میں بسر ہو جائے
اور کیا چاہئے جو بار دگر ہو جائے
درد کی دھوپ ڈھلے آس کا موسم نکھرے
تیرے امکان کا پودا جو شجر ہو جائے
اپنی سچائی کا پھر مجھ کو یقیں آئے گا
زینت دار و رسن میرا جو سر ہو جائے
زندگی کرنے کا آ جائے سلیقہ جو ہمیں
صورت خلد بریں اپنا یہ گھر ہو جائے
مجھ کو بس اتنا ہی سامان سفر کافی ہے
میری منزل ہی مرا رخت سفر ہو جائے
کھل اٹھے پھول کی مانند مقدر میرا
میرے محبوب اگر تیری نظر ہو جائے
حاصل زیست وہی میری تمنا ہے وہی
وہ کسی روز مقدر کا ثمر ہو جائے
غم دنیا سے ملے مجھ کو رہائی اے نبیلؔ
میری آہوں کا اگر اس پہ اثر ہو جائے
کوئی دامن نہ اڑے زرد ہواؤں سے نبیلؔ
گر سہارا جو بشر کا یہ بشر ہو جائے
غزل
زندگی تیری تمنا میں بسر ہو جائے
نبیل احمد نبیل