زندگی سے عمر بھر تک چلنے کا وعدہ کیا
اے مری کمبخت سانسو ہائے تم نے کیا کیا
ابتدائے ہوش سے اچھا بھلا پتھر تھا میں
اک نظر بس دیکھ کر تو نے مجھے دریا کیا
ایک بس خاموش سے لمحہ کی خواہش ہی تو تھی
اور اسی خواہش نے لیکن شور پھر کتنا کیا
لطف اب دینے لگی ہے یہ اداسی بھی مجھے
شکریہ تیرا کہ تو نے جو کیا اچھا کیا
سوچتا ہوں کون سے الزام اور اب رہ گئے
ہاں تجھے چاہا تجھے پوجا ترا سجدا کیا
دی نہیں تصویر اپنی تو نے دیوانے کو جب
یوں کیا واللہ اس نے خود کو ہی تجھ سا کیا
کب تلک آخر یہ سہتی رہتی خوابوں کی تپش
تنگ آ کر نیند نے پلکوں سے لو توبہ کیا
غزل
زندگی سے عمر بھر تک چلنے کا وعدہ کیا
گوتم راج رشی