EN हिंदी
زندگی سے تھکی تھکی ہو کیا | شیح شیری
zindagi se thaki thaki ho kya

غزل

زندگی سے تھکی تھکی ہو کیا

ضیا ضمیر

;

زندگی سے تھکی تھکی ہو کیا
تم بھی بے وجہ جی رہی ہو کیا

دیکھ کر تم کو کھلنے لگتے ہیں
تم گلوں سے بھی بولتی ہو کیا

اس قدر جو سجی ہوئی ہو تم
میری خاطر سجی ہوئی ہو کیا

میں تو مرجھا گیا ہوں اب کے برس
تم کہیں اب بھی کھل رہی ہو کیا

آج یہ شام بھیگتی کیوں ہے
تم کہیں چھپ کے رو رہی ہو کیا

اس کی خوشبو نہیں رہی ویسی
شہر سے اپنے جا چکی ہو کیا