EN हिंदी
زندگی ساز شکستہ کی فغاں ہی تو نہیں | شیح شیری
zindagi saz-e-shikasta ki fughan hi to nahin

غزل

زندگی ساز شکستہ کی فغاں ہی تو نہیں

فضل احمد کریم فضلی

;

زندگی ساز شکستہ کی فغاں ہی تو نہیں
زمزمہ سنج بھی ہے مرثیہ خواں ہی تو نہیں

عشق سے باز ہم آتے جو گزرتا وہ گراں
لطف تو یہ ہے طبیعت پہ گراں ہی تو نہیں

دل برا کیجیے کس طرح بھلا پھر اس سے
راحت جاں بھی تو ہے آفت جاں ہی تو نہیں

ایسی یادیں بھی ہیں سو زندگیاں جن پہ نثار
حاصل زیست غم عمر رواں ہی تو نہیں

ہم سمجھتے ہیں جو اپنے کو بڑا اہل نظر
یہ بھی فیض نظر خوش نظراں ہی تو نہیں

قافلے میں ہیں بہت راہرواں بھی تو شریک
رہبراں ہی تو نہیں راہ زناں ہی تو نہیں

ہے بہت ناز تجھے ضبط فغاں پر فضلیؔ
یہ خموشی بھی کہیں طرز فغاں ہی تو نہیں