EN हिंदी
زندگی پانے کی حسرت ہے تو مرتا کیوں ہے | شیح شیری
zindagi pane ki hasrat hai to marta kyun hai

غزل

زندگی پانے کی حسرت ہے تو مرتا کیوں ہے

شاہد احمد شعیب

;

زندگی پانے کی حسرت ہے تو مرتا کیوں ہے
شہر ممنوعہ سے ہو کر وہ گزرتا کیوں ہے

جب بھی امرت کی کوئی بوند زباں پر ٹپکی
اک عجب زہر سا رگ رگ میں اترتا کیوں ہے

چھو کے ہر شے کو گزر جاتا ہے وہ سیل بلا
میرے بے نام جزیرے میں ٹھہرتا کیوں ہے

ہم کو معلوم ہے لمحات کا حاصل بھی شعیبؔ
دل مگر ڈوب کے ہر لمحہ ابھرتا کیوں ہے