زندگی پانے کی حسرت ہے تو مرتا کیوں ہے
شہر ممنوعہ سے ہو کر وہ گزرتا کیوں ہے
جب بھی امرت کی کوئی بوند زباں پر ٹپکی
اک عجب زہر سا رگ رگ میں اترتا کیوں ہے
چھو کے ہر شے کو گزر جاتا ہے وہ سیل بلا
میرے بے نام جزیرے میں ٹھہرتا کیوں ہے
ہم کو معلوم ہے لمحات کا حاصل بھی شعیبؔ
دل مگر ڈوب کے ہر لمحہ ابھرتا کیوں ہے

غزل
زندگی پانے کی حسرت ہے تو مرتا کیوں ہے
شاہد احمد شعیب