زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے
چلتی پھرتی یہ زمانے کی ہوا ہوتی ہے
سیر دنیا کی نہ کچھ یاد خدا ہوتی ہے
عمر انہیں جھگڑوں میں تاراج فنا ہوتی ہے
روح جب قالب خاکی سے جدا ہوتی ہے
کس کو معلوم کہاں جاتی ہے کیا ہوتی ہے
فکر دنیا سے سوا ہو جسے عقبیٰ کا خیال
وہ طبیعت ہی زمانے سے جدا ہوتی ہے
دل پر غم ابھی بن جائے دوائے تسکین
وہ نظر ڈال جو مانوس وفا ہوتی ہے
صادق القول کی پہچان یہی ہے اے نازؔ
دل میں ڈر ہوتا ہے آنکھوں میں حیا ہوتی ہے
غزل
زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے
شیر سنگھ ناز دہلوی