EN हिंदी
زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے | شیح شیری
zindagi nam hai jis chiz ka kya hoti hai

غزل

زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے

شیر سنگھ ناز دہلوی

;

زندگی نام ہے جس چیز کا کیا ہوتی ہے
چلتی پھرتی یہ زمانے کی ہوا ہوتی ہے

سیر دنیا کی نہ کچھ یاد خدا ہوتی ہے
عمر انہیں جھگڑوں میں تاراج فنا ہوتی ہے

روح جب قالب خاکی سے جدا ہوتی ہے
کس کو معلوم کہاں جاتی ہے کیا ہوتی ہے

فکر دنیا سے سوا ہو جسے عقبیٰ کا خیال
وہ طبیعت ہی زمانے سے جدا ہوتی ہے

دل پر غم ابھی بن جائے دوائے تسکین
وہ نظر ڈال جو مانوس وفا ہوتی ہے

صادق القول کی پہچان یہی ہے اے نازؔ
دل میں ڈر ہوتا ہے آنکھوں میں حیا ہوتی ہے