زندگی مجھ کو کہاں لے آئی ہے
سامنے دریا ہے پیچھے کھائی ہے
مجھ کو غیروں سے نہیں شکوہ کوئی
تھا جو اپنا وہ بھی تو ہرجائی ہے
بد نصیبی کو کوئی اپنائے کیوں
پھر مری جانب ہی وہ لوٹ آئی ہے
بند مٹھی میں نہ جگنو کو کرو
ڈھل گیا ہے دن تو پھر شب آئی ہے
کچھ نہ پائے گا تو ساحل پر سحرؔ
جا وہیں پر جس جگہ گہرائی ہے

غزل
زندگی مجھ کو کہاں لے آئی ہے
رمضان علی سحر