زندگی میری ہوئی ہے پھر نڈھال
یہ امید بے ثباتی کا کمال
جب چلی اے زیست مستقبل کی بات
بن گیا ہوں آپ خود اپنا سوال
شعر کہہ کر پاس رکھ لیتا ہوں میں
فن کی دنیا میں نہ ہو پھر قیل و قال
پوچھنا کیا شہر سنگ و خشت سے
رنگ بدلا ہے زمانے کی مثال
میں کہ ہر شعر میں شاہدؔ نہیں
صرف پیش لفظ ہے میرا خیال

غزل
زندگی میری ہوئی ہے پھر نڈھال
شاہد نعیم