زندگی میں یوں تو ہر اک حادثہ ناگاہ تھا
جسم کے پرچھائیں بننے کا عمل جانکاہ تھا
اب تو سارے دشت و دریا ان نگاہوں میں رہیں
دن گئے ذوق سفر میں جب کوئی گمراہ تھا
خالی پن اپنی جگہ کچھ تلخیاں رکھتا تو ہے
کھوکھلے پن سے رفاقت کے بھی دل آگاہ تھا
تیور دریا کا شکوہ ہے نہ طوفاں کا گلا
میری پتواریں خفا تھیں بادباں بد خواہ تھا
اجنبیت آ گئی ہے مجھ میں تھوڑی سی تو کیا
یہ زمانہ بھی مری جانب سے لا پرواہ تھا

غزل
زندگی میں یوں تو ہر اک حادثہ ناگاہ تھا
شہناز نبی