EN हिंदी
زندگی میں یوں تو ہر اک حادثہ ناگاہ تھا | شیح شیری
zindagi mein yun to har ek hadisa nagah tha

غزل

زندگی میں یوں تو ہر اک حادثہ ناگاہ تھا

شہناز نبی

;

زندگی میں یوں تو ہر اک حادثہ ناگاہ تھا
جسم کے پرچھائیں بننے کا عمل جانکاہ تھا

اب تو سارے دشت و دریا ان نگاہوں میں رہیں
دن گئے ذوق سفر میں جب کوئی گمراہ تھا

خالی پن اپنی جگہ کچھ تلخیاں رکھتا تو ہے
کھوکھلے پن سے رفاقت کے بھی دل آگاہ تھا

تیور دریا کا شکوہ ہے نہ طوفاں کا گلا
میری پتواریں خفا تھیں بادباں بد خواہ تھا

اجنبیت آ گئی ہے مجھ میں تھوڑی سی تو کیا
یہ زمانہ بھی مری جانب سے لا پرواہ تھا