EN हिंदी
زندگی میں خوشی نہیں آئی | شیح شیری
zindagi mein KHushi nahin aai

غزل

زندگی میں خوشی نہیں آئی

آیوش چراغ

;

زندگی میں خوشی نہیں آئی
یہ صبا اس گلی نہیں آئی

آپ کو نظم کر نہیں پایا
ہاں مجھے شاعری نہیں آئی

بات کہنے کا ڈھنگ سوچ لیا
بات کہنی کبھی نہیں آئی

بس کو روکے ہوئے تھے دوست مرے
اور وو باوری نہیں آئی

لوگ صدیوں کے درد کاٹ گئے
پر شب آخری نہیں آئی

ہوش میں گھومتے ہو سڑکوں پر
تم کو آوارگی نہیں آئی

ایک مرحوم کی طرح واپس
عمر گزری ہوئی نہیں آئی

چوٹ آواز سے لگی اور پھر
ہوش میں خامشی نہیں آئی