زندگی میں جو یہ روانی ہے
ایک کردار کی کہانی ہے
میں نے اس سے کہا یہ آنسو ہیں
اس نے مجھ سے کہا یہ پانی ہے
تازہ تازہ ہے تیرا غم عمرانؔ
یہ کہانی بڑی پرانی ہے
ایک تو سرپھری ہوا کی چال
اور کشتی بھی بادبانی ہے
زخم جس وقت کی امانت تھا
درد اس دور کی نشانی ہے
شعر جس کو سمجھ رہے ہیں جناب
یہ حقیقت میں بے زبانی ہے
پھر وہی ہے سوال کون و مکاں
پھر وہی میری بے مکانی ہے
اے خدا یہ وجود کا جھگڑا
خاک کا ہے کہ آسمانی ہے
غزل
زندگی میں جو یہ روانی ہے
عمران شمشاد