زندگی کیوں اداس ہے اے دوست
موت کیا آس پاس ہے اے دوست
وہ بھی مصلوب ہو نہ جائے کہیں
وہ بڑا حق شناس ہے اے دوست
تھا جو غالبؔ شکن زمانے میں
وہ یگانہؔ ہی یاسؔ ہے اے دوست
یہ زمانہ بھی کیا قیامت ہے
ہر طرف اک ہراس ہے اے دوست
ہے جو ہر دل میں اک خودی کا سرور
زندگی کی اساس ہے اے دوست
دور رہ کر بھی مجھ سے دور نہیں
وہ سدا دل کے پاس ہے اے دوست
ہو زیارت مجھے مدینے کی
رب سے یہ التماس ہے اے دوست

غزل
زندگی کیوں اداس ہے اے دوست
قیصر عثمانی