زندگی کو نا مرادی سے کوئی شکوہ نہیں
اب اگر پتھر سے ٹکراؤں تو سر پھٹتا نہیں
پی رہی ہے قطرہ قطرہ میرے خوابوں کا لہو
میں ہوں دنیا کے لیے میرے لیے دنیا نہیں
مٹ چکے ہیں دل سے یوں حالات کے دھندلے نقوش
جس طرح گزرا ہوا لمحہ کبھی آتا نہیں
بھوک کھیتوں میں کھڑی ہے جیب میں مہنگائی بند
شہر اور بازار میں گلا کہیں ملتا نہیں
اپنے پہلو میں سمیٹے ہو غم ہستی کا نور
ایسا کوئی فلسفہ انسان کو ملتا نہیں
کوئی پیغام تمنا کوئی پیغام عمل
صرف کہہ دینے سے تو دنیا میں کچھ ہوتا نہیں
کوئی روئے یا ہنسے پروازؔ مجھ کو غم نہیں
میں تو زندہ ہوں مرا احساس دل زندہ نہیں
غزل
زندگی کو نا مرادی سے کوئی شکوہ نہیں
نصیر پرواز