زندگی کی تیز اتنی اب روانی ہو گئی
بات جو سوچی وہ کہنے تک پرانی ہو گئی
عام سی اک بات تھی اپنی محبت بھی مگر
یہ بھی جب لوگوں تلک پہنچی کہانی ہو گئی
خوف کی پرچھائیاں ہیں ہر در و دیوار پر
اپنے گھر پر جانے کس کی حکمرانی ہو گئی
زندگی کے بعد اخترؔ زندگی اک اور ہے
موت بھی جیسے فقط نقل مکانی ہو گئی
غزل
زندگی کی تیز اتنی اب روانی ہو گئی
اختر امان