EN हिंदी
زندگی کی ہر نفس میں بے کلی تیرے بغیر | شیح شیری
zindagi ki har nafas mein be-kali tere baghair

غزل

زندگی کی ہر نفس میں بے کلی تیرے بغیر

سید مبین علوی خیرآبادی

;

زندگی کی ہر نفس میں بے کلی تیرے بغیر
ہر خوشی لگتی ہے دل کو اجنبی تیرے بغیر

فصل گل نے لاکھ پیدا کی فضائے پر بہار
غنچۂ دل پر نہ آئی تازگی تیرے بغیر

تشنہ کامی کو مری سیراب کرنے کے لئے
اٹھتے اٹھتے وہ نظر بھی رہ گئی تیرے بغیر

کوئی جلوہ کوئی منظر مجھ کو بھاتا ہی نہیں
چاند کی صورت بھی ہے بے نور سی تیرے بغیر

رہ گیا آخر سکوں نا آشنا ہو کر مبینؔ
آہٹیں ہونے لگیں ہیں درد کی تیرے بغیر