زندگی کی ہر نفس میں بے کلی تیرے بغیر
ہر خوشی لگتی ہے دل کو اجنبی تیرے بغیر
فصل گل نے لاکھ پیدا کی فضائے پر بہار
غنچۂ دل پر نہ آئی تازگی تیرے بغیر
تشنہ کامی کو مری سیراب کرنے کے لئے
اٹھتے اٹھتے وہ نظر بھی رہ گئی تیرے بغیر
کوئی جلوہ کوئی منظر مجھ کو بھاتا ہی نہیں
چاند کی صورت بھی ہے بے نور سی تیرے بغیر
رہ گیا آخر سکوں نا آشنا ہو کر مبینؔ
آہٹیں ہونے لگیں ہیں درد کی تیرے بغیر
غزل
زندگی کی ہر نفس میں بے کلی تیرے بغیر
سید مبین علوی خیرآبادی