زندگی کی آندھی میں ذہن کا شجر تنہا
تم سے کچھ سہارا تھا آج ہوں مگر تنہا
زخم خوردہ لمحوں کو مصلحت سنبھالے ہے
ان گنت مریضوں میں ایک چارہ گر تنہا
بوند جب تھی بادل میں زندگی تھی ہلچل میں
قید اب صدف میں ہے بن کے ہے گہر تنہا
تم فضول باتوں کا دل پہ بوجھ مت لینا
ہم تو خیر کر لیں گے زندگی بسر تنہا
اک کھلونا جوگی سے کھو گیا تھا بچپن میں
ڈھونڈتا پھرا اس کو وو نگر نگر تنہا
جھٹپٹے کا عالم ہے جانے کون آدم ہے
اک لحد پہ روتا ہے منہ کو ڈھانپ کر تنہا
غزل
زندگی کی آندھی میں ذہن کا شجر تنہا
جاوید اختر