EN हिंदी
زندگی کی آندھی میں ذہن کا شجر تنہا | شیح شیری
zindagi ki aandhi mein zehn ka shajar tanha

غزل

زندگی کی آندھی میں ذہن کا شجر تنہا

جاوید اختر

;

زندگی کی آندھی میں ذہن کا شجر تنہا
تم سے کچھ سہارا تھا آج ہوں مگر تنہا

زخم خوردہ لمحوں کو مصلحت سنبھالے ہے
ان گنت مریضوں میں ایک چارہ گر تنہا

بوند جب تھی بادل میں زندگی تھی ہلچل میں
قید اب صدف میں ہے بن کے ہے گہر تنہا

تم فضول باتوں کا دل پہ بوجھ مت لینا
ہم تو خیر کر لیں گے زندگی بسر تنہا

اک کھلونا جوگی سے کھو گیا تھا بچپن میں
ڈھونڈتا پھرا اس کو وو نگر نگر تنہا

جھٹپٹے کا عالم ہے جانے کون آدم ہے
اک لحد پہ روتا ہے منہ کو ڈھانپ کر تنہا