زندگی کے سب ابھرتے اور ڈھلتے زاویے
نقش ہیں نظروں میں نظروں کے بدلتے زاویے
دھڑکنیں بے تابیاں پر کیف بانہوں کا حصار
سانس کی حدت سے جذبوں کے پگھلتے زاویے
منقطع کرنے لگی ہیں ہوش سے ادراک سے
اک نظر کی وسعتیں قوسیں مچلتے زاویے
رفتہ رفتہ پھول چہروں کی چمک کو کھا گئے
جنس پرور بھوکی نظروں کے نگلتے زاویے
مدتیں ترک تعلق کو ہوئیں اب بھی مگر
ڈھونڈھتی ہوں تیری جانب کو نکلتے زاویے
تجھ کو بھی ہوتا تو ہے ترک محبت پر ملال
تیری آنکھوں میں ہیں رقصاں ہاتھ ملتے زاویے

غزل
زندگی کے سب ابھرتے اور ڈھلتے زاویے
ثروت مختار