زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا
حسرتوں کی میت پر رو رہے ہیں ہم تنہا
مل سکا نہ کوئی بھی ہم سفر زمانے میں
کاٹتے رہے برسوں جادۂ الم تنہا
کھیل تو نہیں یارو راستے کی تنہائی
کوئی ہم کو دکھلائے چل کے دو قدم تنہا
دل کو چھیڑتی ہوگی یاد رفتگاں اکثر
لاکھ جی کو بہلائیں شیخ محترم تنہا
مسجدیں ترستی ہیں اس طرف اذانوں کو
اس طرف شوالوں میں رہ گئے صنم تنہا
اس بھری خدائی میں وہ بھی آج اکیلے ہیں
خلوتوں میں رہ کر بھی جو رہے تھے کم تنہا
تھی قتیلؔ چاہت میں ان کی بھی رضا شامل
پھر بھی ہم ہی ٹھہرے ہیں مورد ستم تنہا
غزل
زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا
قتیل شفائی