EN हिंदी
زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا | شیح شیری
zindagi ke gham lakhon aur chashm-e-nam tanha

غزل

زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا

قتیل شفائی

;

زندگی کے غم لاکھوں اور چشم نم تنہا
حسرتوں کی میت پر رو رہے ہیں ہم تنہا

مل سکا نہ کوئی بھی ہم سفر زمانے میں
کاٹتے رہے برسوں جادۂ الم تنہا

کھیل تو نہیں یارو راستے کی تنہائی
کوئی ہم کو دکھلائے چل کے دو قدم تنہا

دل کو چھیڑتی ہوگی یاد رفتگاں اکثر
لاکھ جی کو بہلائیں شیخ محترم تنہا

مسجدیں ترستی ہیں اس طرف اذانوں کو
اس طرف شوالوں میں رہ گئے صنم تنہا

اس بھری خدائی میں وہ بھی آج اکیلے ہیں
خلوتوں میں رہ کر بھی جو رہے تھے کم تنہا

تھی قتیلؔ چاہت میں ان کی بھی رضا شامل
پھر بھی ہم ہی ٹھہرے ہیں مورد ستم تنہا