EN हिंदी
زندگی کٹ گئی سرابوں میں | شیح شیری
zindagi kaT gai sarabon mein

غزل

زندگی کٹ گئی سرابوں میں

منیش شکلا

;

زندگی کٹ گئی سرابوں میں
خود کو ڈھونڈا کئے کتابوں میں

زندگی دیکھ لے نظر بھر کے
ہم ہیں شامل ترے خرابوں میں

ہر نشہ تھا لہو کی گرمی سے
اب وہ مستی کہاں شرابوں میں

مختصر یہ کہ کٹ گیا رستہ
کچھ گناہوں میں کچھ ثوابوں میں

درد کی داستاں ادھوری ہے
ہم کو رکھ لیجئے حسابوں میں

کیوں سمندر میں شور ہے برپا
کون رہتا ہے ان حبابوں میں

دل کے تاروں سے درد اٹھتا ہے
سوز ہوتا نہیں ربابوں میں