زندگی کر گئی طوفاں کے حوالے مجھ کو
اے اجل کشمکش غم سے چھڑا لے مجھ کو
کچھ تو لے کام تغافل سے وفا کے پیکر
یہ ترا پیار کہیں مار نہ ڈالے مجھ کو
واہ ری قسمت کہ کہاں منزل مقصود ملی
جب مزہ دینے لگے پاؤں کے چھالے مجھ کو
آخری وقت تلک ساتھ اندھیروں نے دیا
راس آتے نہیں دنیا کے اجالے مجھ کو
کوئی بھی محسن و رہبر ہی نہیں ہے میرا
یوں تو دانشؔ ہیں بہت چاہنے والے مجھ کو

غزل
زندگی کر گئی طوفاں کے حوالے مجھ کو
دانشؔ علیگڑھی