EN हिंदी
زندگی کا سفر ختم ہوتا رہا تم مجھے دم بہ دم یاد آتے رہے | شیح شیری
zindagi ka safar KHatm hota raha tum mujhe dam-ba-dam yaad aate rahe

غزل

زندگی کا سفر ختم ہوتا رہا تم مجھے دم بہ دم یاد آتے رہے

شوکت پردیسی

;

زندگی کا سفر ختم ہوتا رہا تم مجھے دم بہ دم یاد آتے رہے
میری ویران پلکوں پہ دن ڈھلتے ہی کچھ ستارے مگر جگمگاتے رہے

لٹ گئی زندگی بجھ گئے دیپ بھی دور تک پھر نہ باقی رہی روشنی
اس اندھیرے میں بھی ہم تری یاد سے اپنی ویران محفل سجاتے رہے

تم سے بچھڑے ہوئے ایک مدت ہوئی دن گزرتا رہا وقت ٹلتا رہا
شام آتی رہی دل دھڑکتا رہا ہم چراغ محبت جلاتے رہے

ایک تم ہی نہ تھے ورنہ ہر چیز تھی چاند کے ساتھ تھی رات کی دل کشی
ساز بجتا رہا لے ابھرتی رہی رقص ہوتا رہا لوگ گاتے رہے

یوں نہ کوئی جیے جس طرح ہم جیے زندگی بھر کسی کو نہ اپنا سکے
بے وفائی مرا دل جلاتی رہی پیار کے نام پر چوٹ کھاتے رہے