زندگی جب سے شناسائے محالات ہوئی
سچ تو یہ ہے کہ خود اپنے سے ملاقات ہوئی
پردۂ غم جسے سمجھا تھا وہی خاموشی
کل تری بزم میں موضوع حکایات ہوئی
ہم کو اے قافلۂ شوق یہ کیا یاد رہے
کہ ہوئی صبح کہاں اور کہاں رات ہوئی
تری دزدیدہ نگاہی کا خیال آتے ہی
دل میں اک روشنی کشف حجابات ہوئی
اس قدر سہل کہاں مرحلۂ سوز و گداز
رات بھر شمع کا جلنا بھی کوئی بات ہوئی
پاس آداب محبت کہ بہ ایں راز و نیاز
مدتوں باد صبا سے نہ کوئی بات ہوئی
جس کی محفل کو روشؔ جنت فردا کہیے
کل اسی خسرو خوباں سے ملاقات ہوئی
غزل
زندگی جب سے شناسائے محالات ہوئی
روش صدیقی