زندگی اک آگ ہے وہ آگ جلنا چاہئے
بے حسی اک برف ہے اس کو پگھلنا چاہئے
موت بھی ہے زندگی اور موت سے ڈرنا فضول
موت سے آنکھیں ملا کر مسکرانا چاہئے
ولولے طوفان و آندھی برق و باراں زلزلے
ان نئے سانچوں میں ہم کو آج ڈھلنا چاہئے
بھوک بیکاری کے شکوے ان سے کرنا ہے فضول
ان کے آگے تان کر سینہ نکلنا چاہئے
نے دیا ہے اور نہ دیں گے یہ مصائب کا جواب
اب ہمیں تقدیر اپنی خود بدلنا چاہئے
ہو گلی کوچے میں چرچا بات یہ کافی نہیں
دشمنوں کے پاؤں کی دھرتی دہلنا چاہئے
غزل
زندگی اک آگ ہے وہ آگ جلنا چاہئے
احسان جعفری