زندگی گزری مری خشک شجر کی صورت
میں نے دیکھی نہ کبھی برگ و ثمر کی صورت
خوب جی بھر کے رلائیں جو نظر میں ان کی
قیمتی ہوں مرے آنسو بھی گہر کی صورت
اپنے چہرے سے جو زلفوں کو ہٹایا اس نے
دیکھ لی شام نے تابندہ سحر کی صورت
اس نئے دور کی تہذیب سے اللہ بچائے
مسخ ہوتی نظر آتی ہے بشر کی صورت
حرم و دیر سے مطلب نہ کلیسا سے غرض
کاش یہ بھی کہیں ہوتے ترے گھر کی صورت
نیک اعمال بھی اوروں کے نہیں جپتے ہیں
عیب اپنے نظر آتے ہیں ہنر کی صورت
کیا کوئی اس پہ بھی افتاد پڑی ہے آتشؔ
ابر برسا ہے مرے دیدۂ تر کی صورت
غزل
زندگی گزری مری خشک شجر کی صورت
آتش بہاولپوری