EN हिंदी
زندگی غم کے اندھیروں میں سنورنے سے رہی | شیح شیری
zindagi gham ke andheron mein sanwarne se rahi

غزل

زندگی غم کے اندھیروں میں سنورنے سے رہی

صادق اندوری

;

زندگی غم کے اندھیروں میں سنورنے سے رہی
ایک تنویر حیات آج ابھرنے سے رہی

میں پیمبر نہیں انساں ہوں خطا کار انساں
عرش سے کوئی وحی مجھ پر اترنے سے رہی

میں نے کر رکھا ہے محصور چمن کی حد تک
شاخ در شاخ کوئی برق گزرنے سے رہی

لاکھ افکار و حوادث مجھے روندیں بڑھ کر
جو وفا مجھ کو ملی ہے کبھی مرنے سے رہی

آدمی کتنے ہیولے ہی بنا کر رکھے
موت پھر موت ہے جب آئی تو ڈرنے سے رہی

آخری وقت ہے مختل ہوئے جاتے ہیں حواس
ایسے میں میری خودی کام تو کرنے سے رہی

گھیر رکھا ہے ہر اک سمت سے طوفانوں نے
میری کشتی تو کبھی پار اترنے سے رہی

صادقؔ اس موڑ پہ لے آتے ہیں حالات ہمیں
موج احساس ذرا آج ٹھہرنے سے رہی