EN हिंदी
زندگی ایک سزا ہو جیسے | شیح شیری
zindagi ek saza ho jaise

غزل

زندگی ایک سزا ہو جیسے

امین راحت چغتائی

;

زندگی ایک سزا ہو جیسے
کسی گنبد کی صدا ہو جیسے

رات کے پچھلے پہر دھیان ترا
کوئی سائے میں کھڑا ہو جیسے

آم کے پیڑ پہ کوئل کی صدا
تیرا اسلوب وفا ہو جیسے

یوں بھڑک اٹھے ہیں شعلے دل کے
اپنے دامن کی ہوا ہو جیسے

رہ گئے ہونٹ لرز کر اپنے
تیری ہر بات بجا ہو جیسے

دور تکتا رہا منزل کی طرف
رہرو آبلہ پا ہو جیسے

یوں ملا آج وہ راحتؔ ہم سے
ایک مدت سے خفا ہو جیسے