EN हिंदी
زندگی درد کی کہانی ہے | شیح شیری
zindagi dard ki kahani hai

غزل

زندگی درد کی کہانی ہے

فراق گورکھپوری

;

زندگی درد کی کہانی ہے
چشم انجم میں بھی تو پانی ہے

بے نیازانہ سن لیا غم دل
مہربانی ہے مہربانی ہے

وہ بھلا میری بات کیا مانے
اس نے اپنی بھی بات مانی ہے

شعلۂ دل ہے یہ کہ شعلہ ساز
یا ترا شعلۂ جوانی ہے

وہ کبھی رنگ وہ کبھی خوشبو
گاہ گل گاہ رات رانی ہے

بن کے معصوم سب کو تاڑ گئی
آنکھ اس کی بڑی سیانی ہے

آپ بیتی کہو کہ جگ بیتی
ہر کہانی مری کہانی ہے

دونوں عالم ہیں جس کے زیر نگیں
دل اسی غم کی راجدھانی ہے

ہم تو خوش ہیں تری جفا پر بھی
بے سبب تیری سرگرانی ہے

سر بہ سر یہ فراز‌ مہر و قمر
تیری اٹھتی ہوئی جوانی ہے

آج بھی سن رہے ہیں قصۂ عشق
گو کہانی بہت پرانی ہے

ضبط کیجے تو دل ہے انگارا
اور اگر روئیے تو پانی ہے

ہے ٹھکانا یہ در ہی اس کا بھی
دل بھی تیرا ہی آستانی ہے

ان سے ایسے میں جو نہ ہو جائے
نو جوانی ہے نو جوانی ہے

دل مرا اور یہ غم دنیا
کیا ترے غم کی پاسبانی ہے

گردش چشم ساقیٔ دوراں
دور افلاک کی بھی پانی ہے

اے لب ناز کیا ہیں وہ اسرار
خامشی جن کی ترجمانی ہے

مے کدوں کے بھی ہوش اڑنے لگے
کیا تری آنکھ کی جوانی ہے

خودکشی پر ہے آج آمادہ
ارے دنیا بڑی دوانی ہے

کوئی اظہار ناخوشی بھی نہیں
بد گمانی سی بد گمانی ہے

مجھ سے کہتا تھا کل فرشتۂ عشق
زندگی ہجر کی کہانی ہے

بحر ہستی بھی جس میں کھو جائے
بوند میں بھی وہ بیکرانی ہے

مل گئے خاک میں ترے عشاق
یہ بھی اک امر آسمانی ہے

زندگی انتظار ہے تیرا
ہم نے اک بات آج جانی ہے

کیوں نہ ہو غم سے ہی قماش اس کا
حسن تصویر شادمانی ہے

سونی دنیا میں اب تو میں ہوں اور
ماتم عشق آنجہانی ہے

کچھ نہ پوچھو فراقؔ عہد شباب
رات ہے نیند ہے کہانی ہے