زندگی بھر ہم لب دریا رہے
اور سرابوں کی طرح تشنہ رہے
مری تاریکی سے گھر کیوں ہو سیاہ
آنکھیں بجھ جائیں دیا جلتا رہے
بن گئے ہر عہد کے دل کی امنگ
زندہ لوگ اس طرح بھی زندہ رہے
ظلم دیکھو قصر عشرت ہم بنائیں
اور ہمیں پر بند دروازہ رہے
جاگتی آنکھوں سے کیا آئے نظر
آدمی کا ذہن اگر سویا رہے
محشرؔ اس تاروں کی دنیا میں مدام
چاند کی مانند ہم تنہا رہے
غزل
زندگی بھر ہم لب دریا رہے
محشر بدایونی