زندگی بچ نکلتی ہے ہر جنگ میں وقت کے وار سے
پھر ٹپکتا ہے اک بار لمحوں کا خوں سانس کی دھار سے
کتنے شہروں کی آلودگی کو ہوا نے اکٹھا کیا
اور مرنے پہ آئے تو ہم مر گئے گل کی مہکار سے
درد والے تو ایمان لے آئیں ہیں لفظ پر صاحبو!
لفظ کیا شے ہے پوچھو یہ فن کار سے یا عزا دار سے
ڈوبتے وقت مانجھی سے دریا نے بادیدۂ نم کہا
کوئی کشتی کنارے لگی ہے کبھی ایک پتوار سے!
دل یہی چاہتا تھا شناورؔ ستاروں کا منہ نوچ لوں!
شہر کو میں نے دیکھا تھا اک رات مسجد کے مینار سے
غزل
زندگی بچ نکلتی ہے ہر جنگ میں وقت کے وار سے
شناور اسحاق