زندگی اپنی خواب جیسی ہے
خوب رو بے نقاب جیسی ہے
صحن گلشن میں آپ کی ہستی
شاخ پر ایک گلاب جیسی ہے
کبھی ڈوبی ہے اور کبھی ابھری
عاشقی بھی حباب جیسی ہے
ہوش میں رہ کے بھی ہے بے ہوشی
زیست اپنی شراب جیسی ہے
ان کی شوخی تو ہے بہار چمن
سادگی محو خواب جیسی ہے
ہے کرشمہ یہ ان کی آنکھوں کا
خامشی بھی خطاب جیسی ہے
گزرے لمحوں کے ساتھ ساتھ انورؔ
زندگی انقلاب جیسی ہے
غزل
زندگی اپنی خواب جیسی ہے
انور جمال انور