زندگی ایسے گھروں سے تو کھنڈر اچھے تھے
جن کی دیوار ہی اچھی تھی نہ در اچھے تھے
ان کی جنت میں رہے ہم تو یہ احساس ہوا
اپنے ویرانوں میں ہم خاک بسر اچھے تھے
بند تھی ہم پہ وہی راہ گلستاں کہ جہاں
سایہ کرتے ہوئے دو رویہ شجر اچھے تھے
عمر کی اندھی گپھاؤں کا سفر لمبا تھا
وہ تو کہئے کہ رفیقان سفر اچھے تھے
کہیں صحرا کہیں جنگل تو کہیں دریا تھے
میرے حصے کی زمیں تیرے سفر اچھے تھے
سیر دنیا سے جو لوٹے تو یہ جانا ہم نے
شہر غالبؔ ترے خوبان نظر اچھے تھے
غزل
زندگی ایسے گھروں سے تو کھنڈر اچھے تھے
زبیر رضوی