زندگانی کی حقیقت تب ہی کھلتی ہے میاں
کار زار زیست کی جب نبض رکتی ہے میاں
روز ہم تعمیر کرتے ہیں فصیل جسم و جاں
روز جسم و جاں سے کوئی اینٹ گرتی ہے میاں
خواب سے کہہ دو حدود چشم سے باہر نہ ہو
آنکھ سے اوجھل ہر اک تعبیر چبھتی ہے میاں
کل یہی چہرے بہار حسن کی پہچان تھے
آج ان چہروں سے گرد عمر اڑتی ہے میاں
خواب حسرت اشک الجھن نالہ و فریاد و غم
کشت جاں میں روز فصل درد اگتی ہے میاں
جھوٹ ہے جب خواہش نام و نمود و تخت و تاج
جھوٹ کی خواہش میں کیوں کر عمر کٹتی ہے میاں
وصل کا درکار ہیں کچھ ہجر کے لمحات بھی
وصل کی خواہش میں شدت یوں ہی بڑھتی ہے میاں
دیکھ کر ذاکرؔ غریب شہر کی فاقہ کشی
موت اپنے آپ سو سو بار مرتی ہے میاں

غزل
زندگانی کی حقیقت تب ہی کھلتی ہے میاں
ذاکر خان ذاکر