زندہ رہنے کا وہ افسون عجب یاد نہیں
میں وہ انساں ہوں جسے نام و نسب یاد نہیں
میں خیالوں کے پری خانوں میں لہرایا ہوں
مجھ کو بے چارگیٔ محفل شب یاد نہیں
خواہشیں رستہ دکھا دیتی ہیں ورنہ یارو
دل وہ ذرہ ہے جسے شہر طلب یاد نہیں
گرد سی باقی ہے اب ذہن کے آئینے پر
کیسے اجڑا ہے مرا شہر طرب یاد نہیں
تبصرہ آپ کے انداز کرم پر کیا ہو
مجھ کو خود اپنی تباہی کا سبب یاد نہیں
خود فراموشی نے تکلیف کی شدت کم کی
مجھ کو کب یاد تھے یہ ظلم جو اب یاد نہیں
مجھ سے پوچھا جو گیا جرم مرا محشر میں
داور حشر سے کہہ دوں گا کہ اب یاد نہیں
عجز کے ساتھ چلے آئے ہیں ہم یزدانیؔ
کوئی اور ان کو منا لینے کا ڈھب یاد نہیں

غزل
زندہ رہنے کا وہ افسون عجب یاد نہیں
یزدانی جالندھری