زندہ ہو جاتا ہوں میں جب یار کا آتا ہے خط
روح تازہ مردہ دل کے واسطے لاتا ہے خط
تہنیت نامہ نہیں یہ اے مرے پیغامبر
اس سے کہنا اشک خوں سے سرخ ہو جاتا ہے خط
سر زمین قاف پر ہے فوج زنگی کا ہجوم
یہ سماں تیرے رخ انور پہ دکھلاتا ہے خط
دھمکیاں تحریر ہوں یا ظلم کا مضمون ہو
پھر یہ میرے دل کو اے دل دار بہلاتا ہے خط
دے کے خط قاصد سے واپس کر لیا یہ کہہ کے ہائے
اس کو ہوتی ہے تسلی جب مرا جاتا ہے خط
حالت گریہ میں نامہ بر کی کچھ حاجت نہیں
اشک کے سیلاب میں بہتا ہوا جاتا ہے خط
کیا شب فرقت کی تیری بے قراری درج ہے
نامہ بر کو کیوں ترا اے برقؔ تڑپاتا ہے خط
غزل
زندہ ہو جاتا ہوں میں جب یار کا آتا ہے خط
شیام سندر لال برق