EN हिंदी
ذکر تیرا کریں گے پھر تجھ سے | شیح شیری
zikr tera karenge phir tujhse

غزل

ذکر تیرا کریں گے پھر تجھ سے

مصحف اقبال توصیفی

;

ذکر تیرا کریں گے پھر تجھ سے
ابھی دیکھا نہیں ہے جی بھر کے

پوچھ کر روشنی کے کھمبوں سے
ڈھونڈتے ہیں مجھے گلی کوچے

مر گئی رات میری آنکھوں میں
دن کے فٹ پاتھ پر تھے خواب پڑے

چاند کیوں آسماں سے اترے گا
شاخ سے ٹوٹ جائیں گے پتے

راز کیا ہے کسی کی سنگت کا
تم اکیلے نظر نہیں آتے

وہ ہنسی دل میں گھنٹیاں سی ہیں
دیوتاؤں نے پھول برسائے