ذکر تیرا کریں گے پھر تجھ سے
ابھی دیکھا نہیں ہے جی بھر کے
پوچھ کر روشنی کے کھمبوں سے
ڈھونڈتے ہیں مجھے گلی کوچے
مر گئی رات میری آنکھوں میں
دن کے فٹ پاتھ پر تھے خواب پڑے
چاند کیوں آسماں سے اترے گا
شاخ سے ٹوٹ جائیں گے پتے
راز کیا ہے کسی کی سنگت کا
تم اکیلے نظر نہیں آتے
وہ ہنسی دل میں گھنٹیاں سی ہیں
دیوتاؤں نے پھول برسائے

غزل
ذکر تیرا کریں گے پھر تجھ سے
مصحف اقبال توصیفی