ذکر مرا اور تیرے لب پر یاد مری اور تیرے دل میں
جھوٹی آس دلانے والے آگ نہ بھڑکا میرے دل میں
مجھ سے آنکھیں پھیر کے تو نے یہ مشکل بھی آساں کر دی
ورنہ تیرے غم کے بدلے لیتا کون بسیرے دل میں
پیار بھری امیدوں پر اغیار کی وہ زر پوش نگاہیں
کانٹوں کے پیوند لگا کر تو نے پھول بکھیرے دل میں
پوچھ رہی ہے دنیا مجھ سے وہ ہرجائی چاند کہاں ہے
دل کہتا ہے غیر کے بس میں میں کہتا ہوں میرے دل میں
کاش کبھی سفاک زمانہ میرا سینہ چیر کے دیکھے
چین کے بدلے درد نے اب تو ڈال دیئے ہیں ڈیرے دل میں
ڈرتے ڈرتے سوچ رہا ہوں وہ میرے ہیں اب بھی شاید
ورنہ کون کیا کرتا ہے یوں پھیروں پر پھیرے دل میں
پیار کی پہلی منزل پر انجان مسافر دیکھ رہا ہے
آنکھوں میں سنگین اجالے اور سیال اندھیرے دل میں
اجڑی یادو ٹوٹے سپنو شاید کچھ معلوم ہو تم کو
کون اٹھاتا ہے رہ رہ کر ٹیسیں شام سویرے دل میں
غزل
ذکر مرا اور تیرے لب پر یاد مری اور تیرے دل میں
قتیل شفائی