ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
غیر کی بات بگڑ جائے تو کچھ دور نہیں
وعدۂ سیر گلستاں ہے خوشا طالع شوق
مژدۂ قتل مقدر ہے جو مذکور نہیں
شاہد ہستی مطلق کی کمر ہے عالم
لوگ کہتے ہیں کہ ہے پر ہمیں منظور نہیں
قطرہ اپنا بھی حقیقت میں ہے دریا لیکن
ہم کو تقلید تنک ظرفی منصور نہیں
حسرت اے ذوق خرابی کہ وہ طاقت نہ رہی
عشق پر عربدہ کی گوں تن رنجور نہیں
میں جو کہتا ہوں کہ ہم لیں گے قیامت میں تمہیں
کس رعونت سے وہ کہتے ہیں کہ ہم حور نہیں
ظلم کر ظلم اگر لطف دریغ آتا ہو
تو تغافل میں کسی رنگ سے معذور نہیں
صاف دردی کش پیمانۂ جم ہیں ہم لوگ
وائے وہ بادہ کہ افشردۂ انگور نہیں
ہوں ظہوری کے مقابل میں خفائی غالبؔ
میرے دعوے پہ یہ حجت ہے کہ مشہور نہیں
غزل
ذکر میرا بہ بدی بھی اسے منظور نہیں
مرزا غالب