EN हिंदी
ذکر نشاط خلوت غم میں برا لگے | شیح شیری
zikr-e-nashat KHalwat-e-gham mein bura lage

غزل

ذکر نشاط خلوت غم میں برا لگے

نازش پرتاپ گڑھی

;

ذکر نشاط خلوت غم میں برا لگے
تم بھی اگر ملو تو مجھے حادثہ لگے

جب بھی کسی کی سعئ کرم کی ہوا لگے
مجھ کو مرا وجود بکھرتا ہوا لگے

ہوں مجرم حیات مجھے کیوں برا لگے
یہ دور زندگی جو مسلسل سزا لگے

اس دور کا نصیب ہے وہ منزل حیات
احباب کا خلوص جہاں سانحہ لگے

حالات سانس لیتے ہیں دہشت کی چھاؤں میں
میرا ضمیر مجھ ہی سے ڈرتا ہوا لگے

یوں اٹھ گئی ہے دہر سے اپنائیت کہ اب
ملیے جو خود سے بھی تو کوئی دوسرا لگے

اس طرح رائیگاں گئی نازشؔ مری وفا
جیسے کسی فقیر کے در پر صدا لگے