زیست کیا ہے حماقتوں کے سوا
چند ظالم صداقتوں کے سوا
ہم نے دانشوروں سے کیا سیکھا
الجھی الجھی عبارتوں کے سوا
فن کو ورثے میں کیا دیا ہم نے
خوب صورت علامتوں کے سوا
ہم نے اس زندگی سے کیا پایا
چند ذہنی رفاقتوں کے سوا
ان بڑی طاقتوں کے پاس ہے کیا
چھوٹی چھوٹی رقابتوں کے سوا
آستینوں میں دوستوں کی ہے کیا
پس پردہ عداوتوں کے سوا
کیا ہے تہذیب مغربی کا نشاں
اونچی اونچی عمارتوں کے سوا
یہ سیاست کی گرمئ رفتار
کیا ہے مہمل بجھارتوں کے سوا
کیا لیا ہم نے اپنے ماضی سے
نیم مردہ روایتوں کے سوا
اپنی منزل نہیں کوئی شاید
جان لیوا مسافتوں کے سوا
اپنا سرمایۂ حیات ہے کیا
رنگ در رنگ ساعتوں کے سوا
غزل
زیست کیا ہے حماقتوں کے سوا
ربیعہ فخری