زیست کی دھوپ سے یوں بچ کے نکلتا کیوں ہے
تو جو سورج ہے تو پھر سائے میں چلتا کیوں ہے
تو جو پتھر ہے تو پھر پلکوں پہ آنسو کیسے
تو سمندر ہے تو پھر آگ میں جلتا کیوں ہے
میرے چہرے میں جو شائستہ نظر آتا ہے
میری شریانوں میں وہ شخص ابلتا کیوں ہے
کل تمہیں نے اسے یہ پیالہ دیا تھا یارو
معترض کیوں ہو کہ وہ زہر اگلتا کیوں ہے
میری سانسوں میں سسکنے کی صدا آتی ہے
ایک مرگھٹ سا مرے سینے میں جلتا کیوں ہے
جانے کن ذروں سے اس خوں کی شناسائی ہے
پاؤں اس موڑ پہ ہی آ کے پھسلتا کیوں ہے
محفل لغو سے تہذیب نے کیا لینا ہے
ایسے شوریدہ سروں میں تو سنبھلتا کیوں ہے

غزل
زیست کی دھوپ سے یوں بچ کے نکلتا کیوں ہے
اسلم حبیب