زیست کا اک گناہ کر سکے نہ ہم
سانس کے واسطے بھی مر سکے نہ ہم
جانے کس وہم نے قدم پکڑ لئے
اس کی دھند سے گزر سکے نہ ہم
شہر کی وہ گلی سکوت پا گئی
چار چھ دن سے جو گزر سکے نہ ہم
گنجلک خواب کا مآل دیکھتے
نیند کے غار میں اتر سکے نہ ہم
اس طرف بھی کشادہ ہاتھ تھے خمارؔ
دشت میں جس طرف بکھر سکے نہ ہم

غزل
زیست کا اک گناہ کر سکے نہ ہم
خمار قریشی