EN हिंदी
زیست کا اک گناہ کر سکے نہ ہم | شیح شیری
zist ka ek gunah kar sake na hum

غزل

زیست کا اک گناہ کر سکے نہ ہم

خمار قریشی

;

زیست کا اک گناہ کر سکے نہ ہم
سانس کے واسطے بھی مر سکے نہ ہم

جانے کس وہم نے قدم پکڑ لئے
اس کی دھند سے گزر سکے نہ ہم

شہر کی وہ گلی سکوت پا گئی
چار چھ دن سے جو گزر سکے نہ ہم

گنجلک خواب کا مآل دیکھتے
نیند کے غار میں اتر سکے نہ ہم

اس طرف بھی کشادہ ہاتھ تھے خمارؔ
دشت میں جس طرف بکھر سکے نہ ہم