زیست بے وعدۂ انوار سحر ہے کہ جو تھی
ظلمت بخت بہ ہر رنگ و نظر ہے کہ جو تھی
عشق برباد کن راحت دل ہے کہ جو تھا
شوخیٔ دوست بہ انداز دگر ہے کہ جو تھی
آج بھی کوئی نہیں پوچھتا اہل دل کو
آج بھی ذلت ارباب نظر ہے کہ جو تھی
خود پرستی کا رواج آج بھی ہے عام کہ تھا
راستی آج بھی محتاج اثر ہے کہ جو تھی
آج بھی جذبۂ اخلاص پریشاں ہے کہ تھا
آج بھی دیدہ وری خاک بسر ہے کہ جو تھی
آج بھی علم و ہنر کی نہیں کوئی وقعت
اب بھی ناقدری اصحاب ہنر ہے کہ جو تھی
آج بھی مہر و وفا کی نہیں قیمت کوئی
آج بھی منزلت کیسۂ زر ہے کہ جو تھی
کامرانی پہ ہے نازاں ہوس ہیچ مدار
عاشقی آج بھی با دیدۂ تر ہے کہ جو تھی
روح اخلاص تو دربند ہے بے پرسش حال
مدحت حسن سر راہ گزر ہے کہ جو تھی
صاف گوئی کو سمجھتے ہیں یہاں عیب اب بھی
ذہنیت آج بھی آلودۂ شر ہے کہ جو تھی
اسپ تازی کو میسر نہیں چارا شعلہؔ
اور تن زیبی و آرائش خر ہے کہ جو تھی
غزل
زیست بے وعدۂ انوار سحر ہے کہ جو تھی
دوارکا داس شعلہ