EN हिंदी
زیر زمیں رہوں کہ تہہ آسماں رہوں | شیح شیری
zer-e-zamin rahun ki tah-e-asman rahun

غزل

زیر زمیں رہوں کہ تہہ آسماں رہوں

مضطر خیرآبادی

;

زیر زمیں رہوں کہ تہہ آسماں رہوں
اے جستجوئے یار بتا میں کہاں رہوں

مصروف شکر نعمت پیر مغاں رہوں
اللہ مجھ کو یوں ہی پلائے جہاں رہوں

گھل کر بھی جانب در پیر غاں رہوں
موج شراب ناب بنوں اور رواں رہوں

یارب حریق شعلۂ عشق بتاں رہوں
دوزخ کی آگ لے کے مقیم جناں رہوں

ظالم یہ بزم حسن کا اچھا رواج ہے
تو شمع ہو کے بھی نہ جلے میں تپاں رہوں

اے چشم یار موت کا پہلو بچا کے تو
ایسی نگاہ ڈال کہ میں نیم جاں رہوں

آب حیات پی کے خضر کیا یہاں رہے
میں ٹھان لوں تو کچھ نہ پیوں اور یہاں رہوں

بن جائیں میری طرز فنا کی کہانیاں
ایسا مٹا کہ صاحب‌ نام و نشاں رہوں

ساقی وہ خاص طور کی تعلیم دے مجھے
اس میکدے میں جاؤں تو پیر مغاں رہوں

مضطرؔ وجود ذات نے گھر تک بھی لے لیا
جب خود وہ ہر جگہ ہے تو اب میں کہاں رہوں