زیر لب ہم نے تشنگی کر لی
اک سمندر سے دوستی کر لی
راہ تکتے رہے ہواؤں کی
پھر چراغوں نے خودکشی کر لی
وقت کی چال دیکھنے کے لیے
ہم نے رفتار میں کمی کر لی
کام کوئی نہ ہو سکا ہم سے
ہم نے ہر فکر پیشگی کر لی
ہم نے ہر غم چھپا لیا اس سے
ضبط اس نے بھی ہر خوشی کر لی
رات بھر کوستے ہیں دنیا کو
صبح ہوتے ہی دوستی کر لی
غزل
زیر لب ہم نے تشنگی کر لی
نشانت شری واستو نایاب