EN हिंदी
ذہن رہتا ہے بدن خواب کے دم تک اس کا | شیح شیری
zehn rahta hai badan KHwab ke dam tak us ka

غزل

ذہن رہتا ہے بدن خواب کے دم تک اس کا

کشور ناہید

;

ذہن رہتا ہے بدن خواب کے دم تک اس کا
پھر وہی رنج وہی خیمۂ غم تک اس کا

میری آنکھیں میری دہلیز پہ رکھ دیتا ہے
خاص ہے میرے لیے شوق ستم تک اس کا

ہے مرے آب محبت سے وہ شاداب بہت
میری پہچان میں ہے قامت نم تک اس کا

بادباں اب تو ہواؤں کو بھی پہچانتے ہیں
ہاتھ پہنچا ہے بہت دیر میں ہم تک اس کا

دل افسردہ سر شام سلگ اٹھتا ہے
ساحل جاں رکھے اب کیسے بھرم تک اس کا

وہ تو جھونکے کی طرح آ کے گزر جاتا ہے
دشت جاں اس کا ہے اور خواب ارم تک اس کا

کوئے احساس ترے حوصلے تسلیم مگر
صحن زنداں ہی لگے نقش قدم تک اس کا

بات آئینے سے کرنے کو بھی موقع ڈھونڈیں
خلوت شوق تراشے ہے صنم تک اس کا