ذہن رہتا ہے بدن خواب کے دم تک اس کا
پھر وہی رنج وہی خیمۂ غم تک اس کا
میری آنکھیں میری دہلیز پہ رکھ دیتا ہے
خاص ہے میرے لیے شوق ستم تک اس کا
ہے مرے آب محبت سے وہ شاداب بہت
میری پہچان میں ہے قامت نم تک اس کا
بادباں اب تو ہواؤں کو بھی پہچانتے ہیں
ہاتھ پہنچا ہے بہت دیر میں ہم تک اس کا
دل افسردہ سر شام سلگ اٹھتا ہے
ساحل جاں رکھے اب کیسے بھرم تک اس کا
وہ تو جھونکے کی طرح آ کے گزر جاتا ہے
دشت جاں اس کا ہے اور خواب ارم تک اس کا
کوئے احساس ترے حوصلے تسلیم مگر
صحن زنداں ہی لگے نقش قدم تک اس کا
بات آئینے سے کرنے کو بھی موقع ڈھونڈیں
خلوت شوق تراشے ہے صنم تک اس کا
غزل
ذہن رہتا ہے بدن خواب کے دم تک اس کا
کشور ناہید